اندلس کا سفر – دوسری اور آخری قسط ،

This slideshow requires JavaScript.

(14 جولائی تا 24 جولائی )

(تحریر، محمد طارق )

جبرالٹر میں ،
اور کشتیاں جلا دی گئیں –

ایک دن آرام کرنے کے بعد 19 جولائی 2019 کو اس جگہ پہنچ گئے ، جہاں 1200 سال پہلے مسلمان یورپ اندلس پہنچے تھے ، جہاں پر مسلمانوں کے طرز حکومت سے دنیا میں ایک نئی تہذیب کا آغاز ہوا ، یہ وہ جگہ تھی جہاں مسلمانوں کے مشہور سپہ سالار طارق ا بن زیاد نے اندلس کی زمین پر قدم رکھا اور طارق ابن زیاد نے اپنے فوجیوں کو کہا تھا کہ وہ اپنی کشتیاں جلا دے ، کشتیاں جلانے کے بعد فوجیوں کے سامنے 2 ہی راستے بچے تھے کہ وہ سامنے کھڑے دشمن کا مقابلہ کریں ،یا سمندر میں غرق ہو جائیں ، طارق ابن زیاد کے فوجیوں نے پہلے راستے کا انتخاب کیا کہ وہ دشمن فوج کا مقابلہ کریں گے، طارق ابن زیادہ کے فوجیوں نے اپنے کمانڈر کی ہدایات کے مطابق دشمن فوج سے جنگ لڑی اور کامیابی حاصل کی ، اس جنگی کامیابی کے بعد مسلمان سارے اندلس پر اپنی حکومت بنانے پر کامیاب ہوگئے ، 711 میں جس جگہ طارق ابن زیاد نے پڑاؤ ڈالا تھا اور تقریر کی تھی اب اس جگہ سعودی حکومت کے تعاون سے بہت خوبصورت مسجد 1997 میں تعمیر کی گئی ہے ، جس کی لاگت پر 5 ملین پاونڈ خرچ ہوئے ، اب اس مسجد کے روز مرہ کے اخراجات ، مسجد امام، دوسرے ملازمین کی تنخواہیں ، حکومت سعودی عرب برداشت کر رہی ہے –

جبکہ جس جگہ سمندر کے کنارے کشتیاں جلائی گئیں تھی ، وہاں پر اس تاریخ واقعہ کا نام و نشان بھی نہیں ملے گا ، بلکہ وہاں پر کچھ کتبے نصب تھے ، جن پر انگریزی زبان میں کچھ نام ، وقوع پذیر واقع کے بارے میں لکھا ہوا ہے ، ان کتبوں کے اردگرد مختلف رنگ کے پھول پڑے ہوئے تھے ، کتبے پر لکھا ہوا تھا کہ جولائی 1943 کو پولینڈ کی جلا وطن حکومت کے وزیر اعظم اور کمانڈر ان چیف کے ہوائی جہاز کو سمندر میں حادثہ پیش آ یا تھا، جس سے پولش جلا وطن وزیراعظم والڈے سرسکی اور اس کے ساتھ 16 فوجی سمندر میں جاں بحق ہوگئے تھے، جلاوطن وزیراعظم نے اس وقت پولینڈ پر ہٹلر قبضے کے خلاف جبرالٹر سے مزاحمتی تحریک شروع کی ہوئی تھی ، اس لیےاب اس جگہ کو پولش جلاوطن وزیراعظم کے نام سے منسوب کیا گیا ہے –

مقامی جبرالٹریین عسائی حکومت نے مسلمانوں کے تاریخ علمی ، جنگی ورثے کو اپنے تعصب کی وجہ سے محفوظ نہیں کیا ، نہ ہی کسی تاریخ مقام پر طارق ابن زیادہ کا کوئی نام لکھا ، بلکہ طارق ابن زیادہ کے گھر کی نہ کوئی حفاظت کی یا اسے کو کوئی حثیت دی؟ اب طارق ابن زیادہ کا گھر صرف مقامی عرب باشندوں سے مل کر ہی آپکو معلوم ہوسکتا ہے کہ طارق ابن زیادہ 712 سے 720 تک کہاں رہتا تھا ، طارق ابن زیادہ کے بارے میں زیادہ معلومات ہمیں چند مقامی مراکشی عرب باشندوں سے حاصل ہوئی –

جس جگہ طارق ابن زیادہ نے اس وقت جنگ جیتی تھی اب اس پورے علاقے کا نام جبرالٹر ہے ، جبرالٹر میں مقامی لوگوں کے ساتھ برطانوی نسل بھی آباد ہے ، جبرالٹر کا حکومتی نظام انگریز چلا رہے ہیں ، جبرالٹر کا رقبہ صرف 6،7 مربع کلومیٹر پر محیط ہے ، اس کی آبادی 30000 نفوس پر مشتمل ہے ، جبرالٹر کے 3 حصے سمندر سے ملتے ہیں ، جبکہ چوتھا حصہ شمال میں اسپین کے ساتھ زمین سے ملتا ہے ، اسپین سے زمین کے ساتھ ملنے والے حصے میں جبرالٹر اور اسپین کا بارڈر ہے ، جہاں پر دونوں ممالک سے ہر روز مقامی لوگوں اور سیاحوں کی آمدورفت رہتی ہے ، دونوں بارڈر ز جبرالٹر اور اسپین پر پاسپورٹ چیک کیے جاتے ہیں ، اسپین سے جبرالٹر اندر داخل ہوتے وقت ہم نے ایک نیا منظر دیکھا کہ عام شاہراہ پر گاڑیوں کو روک لیا جاتا ہے ، اس شاہراہ کے درمیان ہوائی جہاز کا رن وے بنا ہوا ہے ، جب جبرالٹرائیرپورٹ پر کوئی ہوائی جہاز لینڈ یا ٹیک آف کرتا ہے تو اس شاہراہ کے درمیانے حصے سے ہوائی جہاز کا گذر ہوتا ہے ، جیسے ہی جہاز گذر جاتا ہے تو اسی وقت دوبارہ شاہراہ کھول دی جاتی ہے اور گاڑیوں کی آمدورفت شروع ہو جاتی ہے ‘ جبرالٹر کے ایئرپورٹ پر سوائے برٹش ائرویز کے ایک ہوائی جہاز کے علاوہ ، کسی اور کمپنی کے جہازوں کو یہ ائیرپورٹ استعمال کرنےکی اجازت نہیں ، جبرالٹر نیٹو ، برٹش آرمی کے نقطہ نظر سے انتہائی اہمیت کا حامل ملک ہے ، اس لیے جبرالٹر کے اردگردسمندر میں نیٹواور برٹش نیوی کے بحری بیڑے موجود رہتے ہیں –

طنجہ،
ابن بوطوطہ کا شہر –

20 جولائی بروز ہفتہ مراکش کے ساحلی اور تاریخی شہر طنجہ جانے کا پروگرام بنا ، ہم دن 1230 بجے صوبے اندولسیا کے شہر الجزیرہ پہنچ گئے ، الجزیرہ سے طنجہ جانے کے لیے مختلف کمپنیوں کی فیریز مختلف اوقات میں جانے کے لیے تیار تھی ، ہر فیری کا اپنا سیلز کاوئنٹر ہے ، جہاں سے ٹکٹیں خریدی جاسکتی ہیں ، ہم نے دن ڈھائی بجے والی فیری لی اور شام 5 بجے طنجہ کے نئے پورٹ طنجہ مید پر اتر گئے ، طنجہ پورٹ سے باہر نکلتے ہی ہمیں مقامی ٹیکسی کمپنیوں کے ایجنٹوں نے گھیر لیا اور طنجہ شہر جانے کے لیے اپنی اپنی سروس اور قمیت کی آفر کرنے لگے ، ہمارا پروگرام تھا کہ ہم طنجہ مید سے لوکل بس لے لیتے کیونکہ بس پر 10 بندوں کے آنے جانے کے لیے 15 یورو کا خرچہ تھا ، جبکہ ٹیکسی پر 10 بندوں کے آنے جانے کا خرچہ 100 سے 120 یورو تھا ، چند لمحے سوچ بچار اور آپس میں بات چیت کے بعد ہم نے فیصلہ کیا کہ ٹیکسی لی جائے ، کیونکہ ایک ٹیکسی کمپنی والا ایجنٹ ہمیں 100 یورو میں طنجہ شہر میں گھومنے کے لیے ایک گائیڈ کی بھی سہولت دے رہا تھا، ہم نے اس کمپنی کی 2 ٹیکسی پکڑی اور سیدھے طنجہ کی طرف چل پڑے ، ایک گھنٹے کے بعد ہمیں ٹیکسی ڈرائیور ز نے طنجہ کے پرانے بازار مدینہ میں اتارا ، جیسے ہی ہم مدینہ بازار میں ٹیکسی سے اترے تو ہمیں گائیڈ محمد شریف نے خوش آمدید کہا ، اس نے اپنا تعارف کرانے کے بعد ہم سے پوچھا کہ ہمارے پاس ٹوٹل کتنے گھنٹے ہیں طنجہ کے لیے اور ہم نے طنجہ میں کیا کرنا ہے اور کونسی جگہیں دیکھنی ہیں –

ہمارے پروگرام کے مطابق گائیڈ سب سے پہلے ہمیں مدینہ بازار کے وسط میں ایک بڑی کپڑے کی دوکان پر لے گیا ، یہ دوکان مقامی مراکشی لباس خود تیار کرکے بیچتے تھے ، خواتین اور بچوں نے اپنی اپنی پسند کا ایک آدھ لباس خریدا ، جبکہ میں نے دوکان کے مالک سے مراکش کے مجموعی کاروباری معاملات پر معلومات حاصل کی ، دوکان میں ایک گھنٹہ لگانے کے بعد ہم اس دوکان سے باہر نکلے اور گائیڈ محمد شریف کے ساتھ مدینہ بازار کی تنگ گلیوں میں گھومنے لگے ، ہر گلی اور ہر گلی کے نکڑ پر گائیڈ گلی اور گلی کے نکڑ کے بارے میں ہمیں بتاتا کہ یہ گلی کس وجہ سے مشہور ہے ، اس طرح بتاتے بتاتے اور بازار کی تنگ گلیوں میں گھومتے گھومتے گائیڈ محمد شریف ہمیں بازار کے ایک اونچے مقام پر لے آیا ، بقول گائیڈ محمد شریف کے یہ مقام قصبہ کہلاتا ہے ، اس مقام پر ایک بڑا دروازہ لگا ہوا تھا ، اس دروازے کے باہر ایک بالکونی تھی ، بالکونی میں کافی لوگ کھڑے تھے ، بالکونی میں آکر جب ہم نے بالکونی سے باہر نظر دوڑائی تو سامنے کھلا سمندر نظر آیا ، شام کے وقت لوگ سمندر کا نظارہ کرنے اور چند لمحے آرام کرنے اس بالکونی پر آتے ہیں ، گائیڈ محمد شریف کے بقول، جبکہ بالکونی کے باہر مایک لمبی دیوار تھی ، گائیڈ محمد شریف نے بتایا اصل میں پرانا مدینہ بازار ایک قلعے کے اندر ہے ، یہ دیوار اس قلعے کی ہے –

قصبہ کی جگہ دیکھانے کے بعد گائیڈ محمد شریف میرے کہنے پر دوبارہ تنگ گلیوں سے گذارتا ہوا ہمیں ابن بوطوطہ کی قبر پر لے آیا ، ابن بوطوطہ کی قبر ایک تنگ گلی کے اندر ایک چھوٹے سے کمرے میں بنی ہوئی تھی ، اس قبر کی حفاظت پر مامور ایک نابینا شخص متعین تھا ، جو اس وقت وہاں موجود تھا ، ہم نے قبر پر فاتح پڑی ، اور میں نے اس نابینا قبر محافذ سے بذریعہ گائیڈ محمد شریف انٹرویو لیا ، محمد شریف انگریزی اچھی بولتا تھا ، ابن بوطوطہ کی قبر دیکھ کر تھوڑا دکھ ہوا کہ اتنے بڑے آدمی ، علمی شخصیت کو مراکشی حکومت بے اتنی اہمیت نہیں دی جتنا اس کا حق بنتا تھا ، کیونکہ ابن بوطوطہ دنیا کا وہ سیاح ہے جس نے تھوڑے سے عرصے میں پیدل ، گھوڑوں پر چل کر سب سے زیادہ سفر کیا، ابن بوطوطہ 25 سال سے زائد مسلسل سفر میں رہا ، اس نے 120000 کلومیٹر کا فاصلہ طہ کیا ، 44 ممالک میں سے گذرا، بہت سارے ممالک میں اس وقت ان ممالک کے حکمرانوں نے اس کا استقبال کیا ، دوران سفر اس نے اوسط 11 کلومیٹر کا فاصلہ روزانہ طہ کیا –

ابن بوطوطہ کی قبر پر ہی سورج غروب لگا ، ہم نے جلدی جلدی مختلف اور دوکانوں سے مقامی بنی ہوئی چند اشیاء خریدی اور رات ساڑھے نو بجے مدینہ بازار میں ہی ایک ٹریڈشنل مراکشی ریسٹورنٹ پر آگئے ، وہاں پر مقامی مراکشی کھانا کھایا ، دوبارہ مدینہ بازار کی تنگ گلیوں سے گذرتے ہوئے رات ساڑھے گیارہ بجے بازار سے باہر سڑک کے کنارے اور سمندر کے سامنے ٹیکسوں کے پاس آگئے ، سمندر کے کنارے پر انتہائی رش تھا ، گائیڈ محمد شریف نے بتایا اس جگہ دن رات رش رہتا ہے ، یہاں زیادہ تر سیاح آتے ہیں ، یہ جگہ طنجہ کی مشہور جگہ ہے اس کا نام سارایس صغیر ہے-
طنجہ شہر کا مدینہ بازار میی تنگ گلیاں ہونے کے باوجود بازار صاف ستھرا تھا ، کسی بھی جگہ ہم نے باہر کوڑا پڑا ہوا نہیں دیکھا ، نہ ہی ہم نے کوئی کھلی نالی دیکھی ، نہ ہی نالی میں بہتا گندہ بانی ، محمد شریف نے بتایا کہ مقامی طنجہ میونسپل کمیٹی کا عملہ رات 12 بجے سے صبح 6 بجے تک بازار کی گلیوں کی پانی سے صفائی و دھلائی کرتا ہے ، گھریلو اور دوکانوں کے کوڑے کو اٹھا لے جاتے ہیں، گائیڈ اور مقامی کاروباری لوگوں کے مطابق طنجہ شہر کی مجموعی معاشی حالت بہتر ہے ، ہنر مند اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کو کام مل جاتا ہے ، لیکن نوجوانوں میں ہنر مندی میں کمی کی وجہ سے بے روزگاری کی شرح بھی بہت زیادہ ہے –

دوران طنجہ ٹور ہم نے نوٹ کیا کہ مراکشی لوگ پاکستان کے بارے میں اچھی خاصی معلومات رکھتے ہیں ،اور وہ پاکستانی لوگوں سے مل کر خوش ہوتے ہیں ، پاکستانی لوگوں سے میل ملاپ بڑھانے میں دلچسپی رکھتے ہیں –

5 گھنٹے طنجہ شہر میں رہنے کے بعد ہم رات ڈیڑھ بجے طنجہ پورٹ سے فیری پر الجزیرہ کے لیے روانہ ہوئے اور صبح اسپین کے وقت کے مطابق 4 بجے الجزیرہ اترے اور سیدھے اپنی رہائش کی جانب روانہ ہو گئے –

سپین،
جہاں سالانہ 8 کروڑ سیاح آتے ہیں –

سپین کی آبادی 4 کروڑ 65 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے ، اس کا رقبہ 505 999 مربع کلو میٹر ہے ، سپین 17 ریجن میں تقسیم ہے ، جس میں 50 صوبے ہیں ، ہر ریجن مکمل انتظامی طور پر خود مختار ہے ، سپین میں سب سے بڑا مذہب کھٹیلک عیسائت ہے ، عیسائت ماننے والے لوگوں کی تعداد 67 % ہے ، 12 % دھریے ہیں ، جبکہ 4 % مسلمان ہیں ، پچھلے چند سالوں سے سب سے زیادہ آبادی مسلمانوں کی بڑی ہے ، سپین میں اب 20 لاکھ مسلمان رہ رہے ہیں ,

سپین میں 2018 میں 8 کروڑ 80 لاکھ سیاح سیاحت کے لیے آئے ، سیاحت سپین کی قومی پیداوار میں حصہ ڈالنے والا دوسرا بڑا سیکٹر ، سپین دنیا کا دوسرا نمبر پر آنے والے ملک جہاں سب سے زیادہ ٹورسٹ آتے ہیں ، آپ اندازہ کریں ، کہ ملک کی آبادی 4 کروڑ اور ٹورسٹ کی تعداد 8 کروڑ ، یعنی اگر سپین کی وفاقی حکومت ، مقامی ضلعی حکومتیں سیاحت سیکٹر کو آسان نہ کریں اور سہولیات نہ دیں تو سپین کی معاشی حالت انتہائی ابتر ہو جائے –
ہم نے صرف 2 ریجن میں رہے ، اندولیسیا اور کادز، یہ وہ ریجن ہیں جس کو کوسٹا دے سول ( Costa Del Sol ) بھی کہا جاتا ہے ، یعنی دھوپ سے بھرپور سمندری ساحل ، کوسٹا دے سول وہ علاقہ ہے جہاں پر مغربی یورپ کے سیاح کافی تعداد میں آتے ہیں ، اس علاقے میں سیاحوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے مقامی حکومتوں نے اپنے اپنے علاقوں میں سیاحوں کے لیے ہر قسم کی سہولیات مہیا کی ہوئی ہیں ، صاف ، شفاف ساحل سمندر ، کھلے ، ہوادار ایمپارمنٹس اور 4 ، 5 ستارہ ہوٹلز، ہر براعظم کے کھانے ، شاپنگ سنٹرز ، مفت پارکنگ ، ٹول فری روڈ، کھیلوں کے میدان ، خاص طور پر گاف کے بڑے بڑے میدان ، ایمپارمنٹس اور ہوٹلوں کے صحنوں میں سومئنگ پول، سیکورٹی کا مکمل انتظام ، آپ رات میں جتی مرضی دیر گھر، ہوٹل سے باہر رہے ، کسی بھی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ، گلیاں ، سڑکیں صاف ستھری ، مقامی پولیس کا رویہ انتہائی دوستانہ ، مقامی آبادی سیاحوں کو کسی بھی قسم کی مشکل میں دیکھ کر مدد کرنے کے لیے ہر وقت تیار، حلال کھانے میسر ، ہر قسم کی ٹرانسپورٹ کی سہولیات ، ٹرینیں، بسیں اور فیرز اوقات کار کی پابند ، ہر قسم کی آزادی ، وہ آزادی جو کسی دوسرے انسان کی زندگی میں خلل نہ ڈالے، کہنے کا مطلب سیاحوں کو مکمل سہولیات دے کر سپین حکومت اپنی قومی پیداوار میں اضافہ کر رہی ہے-

ہماری طرح نہیں جیسے پاکستان میں حکومتیں سیاحت کے فروغ کے لئے تقاریر اور کاغذوں پر بڑے بڑے پروگرام دیتی ہیں ،لیکن جب کبھی آپ پاکستان کے ان سیاحتی مقامات کا دورہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ سیاحوں کے لیے کوئی سہولیات نہیں ، انفراسٹرکچر ٹوٹا ہوا، گندگی اور کوڑے کے ڈھیر ، عام سیاحوں کے لیے ہوٹلوں کا معیار نہایت پست ، سورج ڈھلتے ہی سیاحوں کے لیے کوئی ایکٹیویٹی نہیں ، اگر ایسا ہوگا تو پھر سیاح کیونکر پاکستان کا رخ کریں گے –

اس 10 دن کے ٹور میں ہمارے ساتھ سفر کرنے والے بچوں اور نوجوانوں نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ انہیں مسلمانوں کے سنہری دور کی کافی معلومات حاصل ہوئی ، خاص طور پر بنو امیہ خاندان کی حکومت ، طارق ابن زیاد ، موسئی بن نصیر، شاہ راڈرک کی جنگی حکمت عملیاں ، ابن بوطوطہ ، ابن رشد کا جغرافیہ ، فلاسفی اور انتظامی امور کے علمی کارناموں سے آگاہی حاصل ہوئی –

Recommended For You

Leave a Comment